I opened my face book page today and I was in awe of what I saw.
A long detailed post in a language I could not read, but felt deep within.
Mr. Shabbeer Soomro has given me this honor. When I asked him what had inspired him to write this article he wrote:
“DEAR Ms BAHAREH, THIS WAS BASED ON UR INTERVIEWS AND CONVERSATIONS ON DIFFERENT FORUMS . I M VERY IMPRESSED BY UR POETIC WORKS AND POETRY THERAPY. SO WHEN I GOT THE CHANCE I TRANSLATED UR CONVERSATION IN URDU THE NATIONAL LANGUAGE OF PAKISTAN N PUBLISHED IT IN OUR DAILY NAI BAAT, WHICH PUBLISHES FROM 12 CITIES OF PAKISTAN AND LONDON.”
I have no words to say thank you, but I can simply say I am so happy that my poetry has touched another soul.
With deep gratitude
InLight
Bahareh
This is how the post appears:
میری خواہش ہے کہ میں ان کی آواز بنوں جو اپنے لئے خود بول نہےں سکتے
موسیقی ، رنگوں اور روشنیوں کی صوفی شاعرہ بہارہ آمدی سے گفتگوجن کی فارسی ، عربی اور انگریزی زبانوں کی تخلیقات عرب دنیا اور یورپ میں مقبول ہو رہی ہیں
شبیر سومرو
”میں پوری زندگی وقفے وقفے سے شاعری کرتی آئی ہوں مگر جب سے دبئی ہجرت کرکے آئی ہوں ،تب سے شاعری میری زندگی بن گئی ہے ۔میں اب ہر وقت اپنے ساتھ ایک چھوٹی سی نوٹ بک رکھتی ہوں۔جب اور جہاں کوئی تخلیقی خیال آتا ہے ،میں اسے لکھ ڈالتی ہوں۔ پھر اس پر سوچتی رہتی ہوں، اسے تکمیل تک پہنچانے کے لئے پکاتی رہتی ہوں اور جب وہ ایک مکمل صورت اختیار کرلیتا ہے ،تب ایک نظم ظہور پذیر ہوتی ہے۔ فارسی موسیقی مجھے شاعری کرنے پر اس طرح مجبور کرتی ہے، جیسے آپ کسی ننھے بچے کو ہاتھ میں پنسل دے کر،اس کی انگلیوں کو متحرک کرکے لکھنا سکھاتے ہےں۔ میں جب پرشین ساز بجتے ہوئے سنتی ہوں تو بے اختیار کاغذ قلم سنبھال کر لکھنا شروع کردیتی ہوں اور دلچسپ امر یہ ہے کہ ادھر سازخاموش ہوتے ہےں ،ادھر میرا قلم لکھنا چھوڑ دیتا ہے….جیسے آپ اس ننھے بچے کا ہاتھ چھوڑدیں تو وہ کچھ لکھ نہےں پاتا اور حیرت سے اپنے لکھے ہوئے الفاظ کو دیکھتا رہ جاتا ہے کہ ”اچھا….یہ سب میں نے لکھا ہے !!“۔
بہارہ آمدی ایرانی نژاد امریکی شاعرہ ہےں جو بچپن سے لے کر پی ایچ ڈی کرنے تک امریکہ میں رہی ہےں مگر اب وہ دبئی منتقل ہوگئی ہےں ۔بہارہ نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری تعلیمی نفسیات میں حاصل کی ہے ۔شاعری ان پر بچپن سے مون سون کی بارشوں کی طرح موسلا دھار اترتی رہی ہے اور اب انہےں شرابور کرتی رہتی ہے۔فارسی شاعری کی نقاد اور فلم پروڈیوسر سونیا عدل مان ایک مضمون میں بہارہ آمدی کی شاعری کے لئے کہتی ہےں کہ ان کی شاعری نے خود ان کو دریافت کیا ہے ۔شاعر لوگ خود کو اپنی شاعری میں دریافت کرنے کی کوشش کرتے ہےں مگر بہارہ کا معاملہ اس کے برعکس ہے ۔آپ اگر اصل بہارہ کو جاننا چاہتے ہےں تو آپ کو ان کی شاعری میں ان کو جاننا پڑے گا۔ ان سے گفتگو میں آپ بہارہ کو پوری طرح جان نہےں سکتے“۔
اسی بہاراں اور اجالاں شاعر بہارہ آمدی کو جب میں نے پچھلے ماہ ایک وڈیو سائٹپر شاعری کے ایک ورکشاپ میں اپنی غنائیہ نظمیں پڑھتے ہوئے سنا اور دیکھا تو میں نے ان کی کھوج لگانا شروع کی اور آخر کار ان کی اپنی ویب سائٹ تک جا پہنچا۔ ان کو ”نئی بات“ میں انٹرویو کے حوالے سے ای میل بھیجی تو انہوں نے اسی رات مجھے رسپانس دیا اور خوشی کا اظہار کیا کہ کئی دوسری زبانوں کی طرح ان کا انٹرویو اردو میں بھی شائع ہورہا ہے۔ انہوں نے میرے سوال نامے کے جوابات بھی ایک ہفتے کے اندر اندر بھجوادیئے اور دوسرے کئی Linksبھی مجھے لکھ بھیجے ،جن پر ان کی شاعری اور شخصیت سے متعلق معلومات موجود ہے ۔اسی طرح ان سے یہ ادبی مصاحبے کا سلسلہ چل نکلا اور اس دوران کئی بار ہمارا رابطہ ہوا ۔انہوں نے ”نئی بات“ کے میگزین صفحات بہت پسند کئے ہےں گویا کہ وہ اردو پڑھ نہےں سکتیں مگر لے آﺅٹ اور خوبصورتی کی تعریف کرتی رہی ہےں۔ انہوں نے یہ خواہش بھی ظاہر کی ہے کہ وہ کوشش کریں گی کہ دبئی میں اردو دان طبقے سے قریب ہوکر یہ پیاری زبان سیکھ اور سمجھ سکیں۔یہاں ہم بہارہ آمدی سے ہونے والے سوال جواب اور ان سے متعلق ادبی میٹر آپ سے شیئر کرتے ہوئے خوشی محسوس کررہے ہےں۔
”آپ نے کب محسوس کیا کہ آپ شاعری کرسکتی ہےں؟“
” جیسا کہ میرا آبائی تعلق ایران سے ہے جو عظیم شاعروں کی سرزمین ہے۔اس وجہ سے، میں بچپن ہی سے ان بڑے شاعروں کے بارے میںکچھ سنتی اور پڑھتی آرہی تھی۔یہ میںنے بہت ابتدائی عمر میں محسوس کیا تھا اور جب چوتھے گریڈ میں پڑھتی تھی، تب میں نے پہلی نظم لکھی تھی، جسے پڑھ کر میرے والدین بہت خوش ہوئے تھے۔ اس کے بعد میں والدین کے ساتھ امریکہ منتقل ہوگئی تو فارسی زبان کی تعلیم مجھ سے چھوٹ گئی بلکہ آہستہ آہستہ فارسی بولنا بھی کم ہوتا چلا گیا کیونکہ امریکہ میں فارسی کا ماحول تھا ہی نہےں…. گھر میں البتہ ہم لوگ بولتے رہے ۔پھر میری زندگی میں دبئی اور شاعری کے ساتھ در آئے۔میں 2010ءمیں امریکہ سے دبئی آگئی تو والدین اور اپنے ماحول سے ایک دم کٹ جانے کا شدید احساس مجھ پر حاوی ہوگیا تھا۔ انہی دنوں ابو ظہبی میں ایک ایرانی تھیٹر گروپ آیا ہوا تھا،میں جو پہلے سے home Sicknessسے بھری بیٹھی تھی،سو اپنی Nostalgiaکے ہاتھوں مجبور ہوکر اس پرفارمنس کو انجوائے کرنے پہنچ گئی۔ وہاں ایرانی موسیقی سن کر مجھ پر وجدانی کیفیت طاری ہوگئی اور میرے اندر سے شدید طلب ابھری کہ مجھے کچھ اظہار کرنا چاہئے۔ میں نے کاغذ قلم سنبھالا اور اندر کا درد کاغذ پر اتارنے بیٹھ گئی ۔محفل ختم ہونے کے دو گھنٹے بعد میں 29 نظمیں لکھ لی تھیں۔جب میں لکھ کر فارغ ہوئی تو معلوم ہوا کہ میں نے فارسی میں نظم قلمبند کرلی ہے ۔میں اسے پڑھتی رہی اور خوشگوار حیرت میں ڈوبتی ابھرتی رہی۔ میں اتنی پرجوش ہوگئی تھی کہ اسی رات کیلی فورنیا فون کرکے والدہ کو وہ نظم پڑھ کر سنائی۔ وہ خوشی سے روپڑیں۔ پھر میں نے ایران فون کرکے اپنی بہن کو اپنا تخلیقی کارنامہ کہہ سنایا۔ اس طرح مجھے بہت حوصلہ افزائی ملی تو میں نے طے کیا کہ اب میں اس طرف توجہ دوں گی ۔تب سے اب تک میں اور شاعری ایک سکے کے دو پہلو بن کر رہ گئے ہےں۔“
بہارہ کہتی ہےں کہ اگلے ڈیڑھ سال کے مختصر عرصے میں انہوں نے فارسی شاعری سے 20بڑے رجسٹر اور 20چھوٹی کاپیاں بھرڈالیں۔ان کی شاعری میں ذاتی احساسات سے لے کر حالات حاضرہ ،عشق ومحبت کی وارداتیں اور بچپن کے دوستوں اور ایران کی یادیںجھلکتی ہےں۔ ان کی نظمیں ان کے خاوند اور دو نوعمر بچیوں کو بھی بہت پسند آتی ہےں اور وہ تینوں بہارہ کی تعریف کرنے میں بھی کبھی کنجوسی نہےں کرتے۔ بہارہ اس کے بارے میں یوں بتاتی ہےں:
”میرے شوہر ہمیشہ وہ نظمیں پسند کرتے ہےں جو واقعاتی ہوتی ہےں یا ان میں کسی تازہ خبر،واقعے کو موضوع بنایاگیا ہوتا ہے۔ وہ مجھے لکھتے دیکھنے کو بہت انجوائے کرتے ہےں ،خاص طورپر جب انہےں یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ میں کس حالیہ واقعے سے متعلق نظم لکھ رہی ہوں۔میری بڑی بیٹی میری بیشتر تخلیقات کو پسند کرتی ہے جبکہ چھوٹی بیٹی تو میری ایسی مداح ہے کہ اسے اپنی شاعرہ ماں پر فخر محسوس ہوتا ہے“۔
”آپ نے پہلی بار شائقین کے سامنے کب اور کہاں شاعری پڑھی؟“
”میں نے پہلی بار کیفے عربیہ میں شاعری پیش کی تھی، جہاں عرب دنیا کی کئی نامور شخصیات،شعراءاور نقادوں کے علاوہ کئی درجن کن رس سامعین موجود تھے۔ مجھے پہلے یقین نہ تھا کہ ایک نئی پرشین شاعرہ کو عرب معاشرے میں لوگ سننے آئیں گے یا اس کی پذیرائی کریں گے مگر کیفے میں لوگ جوق درجوق آتے رہے اور پھر یہ صورتحال ہوگئی کہ بیٹھنے کے علاوہ لوگ دیواروں کے ساتھ کھڑے بھی ہوگئے۔ میرے ساتھ میری دوست سونیا عدل مان بھی تھیں جو کہ پس منظری موسیقی کے طور پر بانسری اور عود بجاتی ہےں۔ میری دوسری پرفارمنس One to One Hotelمیں تھی، جہاں وائلن پر میرے ساتھ ایمااسٹین فیلڈتھیں جوکہ برطانوی تارک وطن لڑکی ہےں۔اس طرح جنوبی کوریا کے سویونگ پارک میں مشہور پیانسٹ اسٹیون کم نے میرے ساتھ میری نظموں پر پرفارم کیا۔ اس پروگرام پر ہم نے بہت محنت کی تھی کیونکہ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی ، ہمیںکم آمدنی والے مزدور طبقے کی رہائشی سہولیات بہتر بنانے کے لئے عطیہ کرنا تھی۔ اس لئے لوگوں نے بھی اس میں دل کھول کر ہماری حوصلہ افزائی کی تھی۔“
”یہ آپ کا Causeتھا؟“
”آپ کہہ سکتے ہےں۔میری ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ میں ان کے لئے بولوں،ان کی آواز بنوں جو اپنے لئے خود بول نہےں سکتے۔مجھے اپنے آپ سے امید ہے کہ آخر کار میں یہ کام کرتے کرتے ایک دن اقوام متحدہ تک جاپہنچوں گی اور اس کے پلیٹ فارم سے لوگوں کی امداد سے متعلق تمام موضوعات پر خطاب کروں گی اور اپنی شاعری پیش کروں گی۔ اس کے لئے میں اپنے کام کو تمام طبقات تک کئی زبانوں میں پہنچانے کی کوشش کررہی ہوں ،جیسے آپ نے دنیا کی ایک بڑی اور معتبر زبان اردو کے لئے مجھے کہا تو میں نے فوراً آمادگی ظاہر کی حالانکہ میں یا میرے خاندان میں کوئی بھی اردو سمجھ نہےں سکتا اور نہ ہی ہم اس میں شایع ہونے والا مواد پڑھ سکتے ہےں۔“
”جیسا کہ فارسی شاعری غنائیت اور ترنم سے بھرپور ہوتی ہے تو اس کے حوالے سے ایک غلط فہمی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ آپ لوگ لازماً گنگناکر شاعری کرتے ہوں گے؟“
”اس کے لئے میں مثال دیا کرتی ہوں کہ آپ تھوڑی دیر کے لئے ساحل پر کھڑے ہوکر سمندر کی آتی جاتی لہروں کو دیکھئے۔ کیا ان لہروں میں آپ کو ترنم اور غنائیت محسوس ہوتی ہے؟یا اس بات کی کوئی وجہ محسوس ہوتی ہے کہ آخرلہریں ساحل ہی کی جانب کیوں آکر سر پٹختی ہےں؟جہاں تک شاعری کرنے کی میری کیفیت کا تعلق ہے تو ہر لفظ اپنی ہی توانائی سے میرے اندر سے نکل کر باہر آتا ہے اور اپنی مقررہ جگہ پر جم جاتا ہے۔ اس طرح وہ جس کام سے آیا ہے ،جو پیغام لے کر آیا ہے،وہ وہی پہنچا تا ہے۔ اس کی کوئی اہمیت نہےں کہ اسے گنگناکر نظم میں جگہ دی گئی ہے یا سادگی سے اداکرکے Placeکیا گیا ہے“
”اس طرح مختلف زبانوں میں بہ یک وقت کس طرح لکھ لیتی ہیں؟“
”میں نے ایران میں صرف چوتھی جماعت تک فارسی کی تعلیم حاصل کی ہے جوکہ میری ماں کی زبان ہے لیکن اس زبان کی موسیقی میرے لئے ناقابل یقین حد تک طاقتور ثابت ہوئی۔ مجھے فارسی میں لکھنے کے قابل ہو نے کے لئے مزید کافی عرصے تک اس خوبصورت مادری زبان کامطالعہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تھی“۔
”آپ پوئٹری تھراپسٹ کے طور پر بھی معرف ہیں۔شاعری کے ذریعے علاج کا یہ کیا سلسلہ ہے ؟“
”پوئٹری تھراپی آج کی ایک بڑی حقیقت ہے۔اس میںشاعری اور الفاظ کے ساتھ مدہم موسیقی کا امتزاج استعما ل کیاجاتا ہے۔ آرٹ تھراپی میں جیسے رنگوں اور برش کااستعمال کر کے متاثرہ شخص کے احساسات کو جگایا اور تبدیل کیا جاتا ہے، اسی طرح پوئٹری تھراپی میںجمالیاتی احساسات کو کام میں لاتے ہوئے علاج کیا جاتا ہے۔شاعری تھراپی کے ذریعے کسی بھی عمر کے انسان کی ذہنی صورتحال بہتر بنائی جاسکتی ہے یا اس حوالے سے اس کی مدد کر سکتے ہیں۔ میں مہلک امراض میں مبتلا نوجوانوں، بچوں یابوڑھوں کے ایک ہسپتال کا وزٹ کرتی ہوں۔ وہاں میں نے اس طریقہ علاج کا جادو دیکھا ہے۔میںنے اپنی زندگی میں جو جوخوبصورتیاں دیکھی ہیں، ان کاذکر نہایت خوبصورت اورشاعرانہ غنائیت کے طریقے سے ہر ہفتے جاکر مریضوں سے کرتی ہوں۔ان کو اپنی شاعری اس طرح سناتی ہوں کہ پس منظر میں میری جیبی ڈیوائس میں سے ہلکی ہلکی موسیقی مدھرتا کے ساتھ کمرے میںگونجتی رہتی ہے۔ اس طرح کے تھراپی سیشن میںلاوارث خواتین کی پناہ گاہوں میں بھی جاکر پیش کرتی ہوں جو کہ مایوسی میں ڈوبی ہوتی ہیں۔یہ ہفتے ہوتا ہے ،جس سے کافی مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ میں خود پوئٹری تھراپی سے اپنی زندگی میں بہت تبدیلی آتے دیکھی ہے“۔
”یہ ہنر یا سائنسی علم آپ نے کیسے اختیا کیا؟“
”میں پہلے نیٹ پر اس سے متعلق پڑھتی رہتی تھی پھر خود سرچ کیا تو میری دنیا ہی بدل گئی۔ میں کیلیفورنیا کے ایک ادارے کے بارے میں پڑھا کہ وہاں کوئی ڈاکٹر جان فاکس پوئٹری تھراپی پڑھا رہے ہیں۔ میں نے ان سے رابطہ کیا اور پھروہاں جا کر ان کی کلاسز میں شرکت کر کے یہ طریقہ علاج سیکھا۔اب میں دوسروں کے کام آرہی ہوں تو مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے“۔
”آپ کی شاعری کو کیا بات سب سے زیادہ Inspireکرتی ہے ؟“
”سانس اور سانس کا سفر مجھے بہت زیادہ Inspireکرتا ہے (بہارہ آمدی کا یہ جملہ پڑھ کر اپنے چچا غالب یاد آگئے جو کہہ گئے ہےں کہ ”لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام، آفاق کی اس کارگہہ شیشہ گری کا)۔تتلی کی وہ پہلی سانس اور سفر، جب وہ کوئے سے نکل کر اپنے رنگا رنگ پروں کو پہلی بار پھڑپھڑاتی ہے….یتیم بچے کی اس ٹھنڈی سانس کا سفر ،جب وہ کسی دوسرے بچے کوماں کے گلے لگتے اور لاڈ کرتے دیکھتا ہے….سورج کی پہلی کرن کا سفر، جب وہ فضا اور بادلوں سے گزرکر زمین پر پہنچتی ہے اور دنیا کو روشن کردیتی ہے۔ اس سفر سے تتلی کو اڑان ملتی ہے ،سبزہ زاروں کو سانسیں ملتی ہےں اور یتیم بچوں کے چہرے چمکنے لگتے ہےں۔ اسی طرح سانس کا سفر مجھے شاعری کرنے پر اکساتا ہے۔شاعری نے میرے ہر سانس کو متاثر کیا ہے“۔
”آپ اپنی شاعری کو مختصراً کس طرح بیان کریں گی؟“
”میری شاعری روشنی سے بھری ہوئی روحانیت والی شاعری ہے“۔
daily NAI BAAT KARACHI
13 AUGUST 2015
Leave a Reply